Articles

 

سویڈن میں مسلمان

( ایک طائرانہ نگاہ )

 

تحریر: ہما نصر، نائب مدیرہ، اردو ہمعصر ڈاٹ ڈی کے ۔

 

دارالحکومت سٹاک ھوم میں کاتارینا چرچ اور سٹاک ھولم مسجد کے مینار ایکساتھ

آسمان کو چھوتے ہوئے ’’ ہم زیستی اور بقائے باہمی ‘‘ کی ٹھوس مثال پیش کرتے ہیں

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

اسکینڈے نیویا میں ڈنمارک کے  پڑوسی ملک، سویڈن کو  رواداری ، انسان دوستی، عالمی بھارئی چارے اور عالمی امن و ادب میں نمایاں خدمات سر انجام دینے والوں کو بلا تفریق قومیت و دین و مذہب،  ہر سال نوبل انعام سے نوازنے والے  ملک کا درجہ دیا  جاتا ہے اور یوں عالمی برادری میں سویڈن کا تشخص اپنے پڑوسی ملک، ڈنمارک اور ناروے ہی نہیں بلکہ شمال مغربی یورپ کے دیگر ممالک سے بھی کہیں زیادہ مثبت ہے ۔

 سویڈن میں فی الوقت دنیا کے کئی ممالک کے تارکین وطن رہائش رکھتے ہیں ۔ یہ تارکین وطن زیادہ تر سنہ ساٹھ کے عشرہ میں یہاں روزگار کے سلسلے میں آئے لیکن وقت کے ساتھ ہی ساتھ عالمی سطح پر جنگوں، سیاسی تنازعات، مذہبی منافقت اور لسانی فسادات کی وجہ سے اپنا ملک و گھر بار چھوڑ کر ہجرت کر کے سویڈن کا رخ اختیار کرنے اور یہاں پناہ لینے والوں کا سلسلہ اب تک جاری ہے ۔

 بیرونی ممالک سے آئے ہوئے یہ غیر ملکی اپنے ساتھ اپنے دینی و ثقافتی روایات بھی لائے ہیں اور جہاں تک حالات اجازت دیتے ہیں وہ اپنی ان اقدار و روایات اور دین کو زندہ رکھنے اور اپنی آنے والی نسلوں کو منتقل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔

زیر نظر مضمون میں ہم سویڈن میں مسلمانوں اور دین اسلام پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں گے ۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

سویڈن میں یوں تو ہر پانچواں فرد غیر ملکی ہے یا پھر وہ کسی غیر ملکی کی ، دوسری، تیسری یا چوتھی پیڑی سے تعلق رکھتا ہے ۔ نقل مکانی کر کے، سویڈن آنے والے ان غیر ملکیوں میں مسلمانوں کی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو،  سویڈن اور مسلمانوں کے درمیان تعلقات کا آغاز سلطنت عثمانیہ کے دور میں ، سترھویں اور خاص کر اٹھارھویں صدی میں عروج پر تھا ۔ سویڈن میں پہلی بار  سنہ انیس سو تیس میں کرائی گئی مردم شماری  کے نتیجے میں، جیسا کہ ریکارڈ پر موجود ہے، ملک بھر میں صرف  پندرہ افراد  کا مسلمان ہونا ظاہر کیا گیا ہے ۔

پہلی بار سویڈن آنے والے  ان مسلمان خاندانوں کا تعلق فن لینڈ کے تاتاری النسل ان مسلمانوں سے تھا جو وہاں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران آن بسے تھے  ۔ یہ تاتاری مسلمان فن لینڈ اور سابق سویت ریاست استونیا سے، سنہ انیس سو چالیس میں ہجرت کر کے سویڈن آئے تھے ۔ یہ تاتار مسلمان اپنی دینی و ثقافتی سرگرمیاں جاری رکھتے ہوئے آہستہ آہستہ سویڈش طرز معاشرت کو قبول کرتے گئے اور بتدیج سویڈش سماج میں مدغم تو ہو گئے لیکن یہ تاتاری مسلمان اپنے ’’دینی تشخص ‘‘ کو آج بھی کسی نا کسی لحاظ سے بہت حد تک برقرار رکھے ہوئے ہیں البتہ یہ تاتار سویڈن میں دوسری قومیتوں کے مسلمانوں  کے ساتھ سماجی تعلقات تو رکھتے ہیں لیکن ان کی بود و باش اور دوسری مسلمان برادریوں کے ساتھ تعلقات کی نوعیت الگ ہے ۔

سویڈن میں ’’ اسلام ‘‘  بطور  ’’دین‘‘ سنہ انیس سو ستر کے عشرے میں ابھر کر تب سامنے آیا جب مشرق وسطیٰ اور کئی ایک افریقی ممالک کے مسلمان  تارکین وطن، گروپوں کی صورت میں ، روزگار یا سیاسی وجوہات کی بنا پر پناہ کے لیے یہاں آنے شروع ہوئے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ سویڈن میں فی الوقت موجود مسلمان، یا تو خود تارکین وطن ہیں یا پھر وہ تارکین وطن مسلمانوں کی اولادیں ہیں ۔ ان میں اکثریت مشرق وسطیٰ  اور خاص کر عراق اور ایران سے تعلق رکھتی ہے ۔  سابق یوگوسلایہ سے تعلق رکھنے والے، دوسرے سب سے بڑے تارکین وطن گروپ میں شامل  جمہوریہ بوسینا ھرزی گووینیا کے مسلمان ہیں۔ ان کے علاوہ صومالیہ سے بوجہ ہجرت کر کے سویڈن آنے والے مسلمانوں کی بھی اچھی خاصی تعداد آباد ہے جب کہ اور ترکی اور پاکستان کے مسلمان تارکین وطن بھی سویڈن میں آباد ہیں لیکن ان دونوں کی تعداد بہت محدود ہے ۔ ترک النسل پاکستانیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں ۔

مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے یہ مسلمان، اگرچہ سویڈن کے طول و عرض میں آباد ہیں لیکن ان کی اکثریت ملک کے بڑے بڑے شہروں میں رہتی ہے ۔

سویڈن میں جہاں جہاں ان مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے وہاں انھوں نے اپنی مساجد بھی تعمیر کر رکھی ہیں ۔ اور بعض جگہوں پر پرانی عمارات کو مسجد  و مدرسہ کے طور پر عبادت اور بچوں کی دینی تعلیم اور ثقافتی سرگرمیاں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔

سویڈن کے ساحلی شہر مالمو میں جہاں پاکستانیوں سمیت مختلف اقوام کے مسلمانوں کی کثیر تعداد ہے، وہاں سنہ انیس سو چوراسی میں مسجد تعمیر کی گئی اور اُپسالا شہر میں مسجد کی تعمیر سنہ انیس سو پچانوے میں مکمل ہوئی ۔ اس شہر میں سویڈن کی قدیم ترین یونیورسٹی بھی ہے ۔ سویڈن کے صنعتی شہر گوتھن بورگ میں احمدی مسلک کے پاکستانیوں نے عبادت کے لیے ایک خوبصورت مسجد سنہ انیس سو تریسٹھ میں تعمیر کی ۔ پاکستان کے آئین کی رو سے احمدیوں کو ’’ خارج از اسلام ‘‘ قرار دیا جا چکا ہے جب کہ بذات خود احمدی اپنے آپ کو حقیقی مسلمان قرار دیتے ہیں ۔ سویڈن میں زیادہ تر مساجد سنہ دو ہزار میں تعمیر کی گئیں جن میں دارالحکومت سٹاک ھولم کی عظیم الشان مسجد بھی شامل ہے ۔

 دیگر مساجد میں امیہ مسجد سنہ دو ہزار چھ میں اور  فتجا مسجد سنہ دو ہزار سات میں تعمیر ہوئیں جو کہ اسلامی فن تعمیر کا بہترین نمونہ ہیں۔ ان مساجد  اور ان کے علاوہ کئی بڑی بڑی دوسری مساجد کی تعمیر کے لیے، سعودی عرب اور لیبیا کی حکومتوں نے بھاری رقوم مہیا کیں۔

سنہ دو ہزار تک سویڈن میں مسلمانوں کی کل تعداد تین لاکھ سے ساڑھے تین لاکھ تک تھی ۔ بدیگر الفاظ سویڈن کی کل آبادی میں مسلمانوں کی شرح تین عشاریہ پانچ فیصد کے قریب ہے ۔  ان میں ایک لاکھ  کے قریب وہ مسلمان ہیں جو مسلمان والدین کے ہاں سویڈن ہی میں پیدا ہوئے یا پھر مسلمان تارکین وطن والدین کے ساتھ سویڈن آئے تھے ۔اب

سنہ دو ہزار تک مسلمانوں کی متذکرہ بالا تعداد، بڑھ کر چار لاکھ سے ساڑھے چار لاکھ تک پہنچ چکی ہے ۔ جو کہ  کُل سویڈش آبادی کا پانچ فیصد بنتی ہے ۔ بذات خود ’’ سویڈش مسلم کونسل ‘‘ نامی مسلمانوں کی مشترکہ تنظیم کے مطابق، اس کے ہاں رجسٹر مسلمان ارکان کی تعداد، ایک لاکھ چھ ہزار تین سو ستائیس ہے ۔

سویڈن میں ’’ دین اسلام ‘‘ قبول کرنے والے مقامی اصل سویڈش النسل افراد کے بارے میں اگرچہ کوئی سرکاری اعدادو شمار دستیاب نہیں ہیں لیکن، مالمو یونیورسٹی کالج سے منسلک، تاریخ ادیان کی محقق و پروفیسر، اینے سوفی روآلڈ کے اندازے کے مطابق،  سنہ انیس سو ساٹھ سے سویڈش چرچ کو چھوڑ  کر دین اسلام میں داخل ہونے والے سویڈش النسل افراد کی تعداد کم سے کم ساڑھے پانچ ہزار تک تو ضرور ہے ۔  اور اب اس تعداد میں تارکین وطن کے آ جانے سے بتدریج مزید اضافہ ہوتا دکھائی دیتا ہے ۔ کیونکہ کئی سویڈش خواتین ان مسلمانوں سے شادی کر کے اپنا دین چھوڑ دیتیں اور اسلام قبول کر لیتی ہیں۔  ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بعض مسلمان اپنا دین چھوڑ کر عیسائیت بھی قبول کر رہے ہیں اور ان میں ایرانیوں کے ساتھ ساتھ بعض پاکستانی بھی شامل ہیں ۔ راقم الحروف( ہما نصر) ان ایرانیوں اور پاکستانیوں کی جانب سے عیسائیت کو قبول کرنے کے متعلق، تاریخ ادیان کی محقق و پروفیسر اینے سوفی روآلڈ کے انکشاف سے متفق نہیں اور میں اس سلسلے میں اپنے تحفظات محفوظ رکھتے ہوئے یہ کہنے کی جرأت کرتی ہوں کہ ڈنمارک کی طرح، سویڈن میں عیسائیت کو قبول کرنے والے دراصل وہ ایرانی ہوتے ہیں جو ’’ بہائی فرفقے ‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں اور کسی بھی اعتبار سے وہ مسلمان ہوتے ہیں اور نہ ہی مسلمانوں کے کسی دوسرے مسلک و فرقے سے اُن کا کوئی تعلق ہوتا ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ مقامی سویڈن محققین انہیں مسلمان سمجھ لیتے ہیں اور خود یہ عیسائیت قبول کرنے والے بہائی ایرانی، عیسائیت قبول کرتے ہوئے اور ویسے بھی اپنی اصل ’’ دینی شناخت ‘‘ ظاہر ہی نہیں کرتے اور اُن کے مسلمانوں جیسے ملتے جلتے ناموں کی وجہ سے مقامی لوگ انہیں مسلمان ہی سمجھ لیتے ہیں ۔ جہاں تک سویڈن میں کسی پاکستانی مسلمان، بیشک وہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتا ہو، اس کا عیسائیت قبول کر لینا، کبھی سامنے نہیں آیا۔ اورجہاں تک پاکستانی مسلمانوں کا تعلق وہ بیشک عملاً تمام دینی ذمہ داریاں پوری کریں نہ کریں، وہ دین اسلام کو چھوڑ کت کسی دوسرے دین کو گلے لگا لیں یہ ممکن ہی نہیں ہاں البتہ ان میں کچھ ایسے ضرور ہو سکتے ہیں جو ’’ دین ‘‘ سے لاتعلق تو ہوں لیکن وہ اپنے ’’ اسلامی پس منظر اور تشخص ‘‘ سے کبھی دستبردار نہیں ہوتے ۔

دین اسلام قبول کرنے والے سویڈشوں میں سب سے پہلے سامنے آنے والے،  ملک کے معروف پینٹر و مصور  ایوان اگیئولی تھے جنہوں نے مصر کی ایک اسلامی دینی تحریک سے متاثر ہوکر سنہ انیس سو نوئے میں ’’ دین اسلام‘‘ میں شمولت کی ۔ یہ ایوان اگیئولی ہی تھے جنہوں نے فرانس کے  ’’ علوم ماروائ طبعی ‘‘ کے ماہر و دانشمند، رینے گوئی نون کو ’’ صوفی ازم ‘‘ کی جانب راغب کیا۔ بذات خود ایوان اگیئولی یورپی صوفیوں کے حلقے میں اپنے اسلامی نام عبدل ہادی المغربی کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔

 اسلام قبول کرنے والے دوسرے معروف سویڈشوں میں، ٹاگے لِنڈبوم، کورٹ المکویسٹ، محمد کنوٹبرنسٹروم اور تورڈ اُولسن میں ۔ محمد کنوٹبرنسٹروم نے سنہ انیس سو اٹھانوے میں قرآن کریم کا سویڈش زبان میں ترجمہ کیا۔  جبکہ باقی متذکرہ سویڈش النسل مسلمان، صوفیوں کے مختلف مکتبہ فکر سے منسلک اور اپنی اپنی جگہ پر کافی متحرک ہیں ۔ مسلمان تارکین وطن مردوں سے شادیاں کرنے والیں سویڈش عورتیں جو اب اسلام قبول کر چکی ہیں ، وہ بھی خاصی تعداد رکھتی ہیں ۔

سٹاک ھولم ایک مسجد۔

سویڈن میں ملکی سطح پر ’’ نیشنل اسلامک انسٹی ٹیوشن کے قیام کی تحریک ، ملک میں ’’ متحدہ اجتماعات اقوام اسلامیہ در سویڈن ‘‘ کے قیام کے ساتھ ہی  سنہ انیس سو تہتر اور چوہتر میں ہوئی ۔ بد قسمتی  سے بعض اندرونی اختلافات کی وجہ سے یہ دونوں پہلی بار سنہ انیس سو بیاسی اور پھر سنہ انیس سو چوراسی میں دوسرے سے الگ ہو گئیں ۔

 ان دونوں تنظیمات کے آپسی ثقافتی تفرقات کے نتیجے میں ’’ سویڈش مسلم فیڈریشن ‘‘ اور ’’ اسلامک کلچرل ایسوسی ایشن اِن سویڈن ‘‘ کا قیام منظر عام پر آیا ۔ سنہ انیس سو پچانوے میں جمہوریہ بوسنیا ھرزی گووینیا کے مسلمانوں کی تنظیم معرض وجود میں آئی اور سنہ دو ہزار میں ’’سویڈش اسلامک اکادمی ‘‘ قائم کی گئی ۔ سفیر محمد کنوٹ برنسٹروم کی قیادت میں قائم ہونے والی یہ ’’ اکادمی ‘‘  سویڈن میں ایک باقاعدہ ’’ اسلامی یونیورسٹی ‘‘ کھولنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اپنے منصوبے کی تکمیل کے لیے کوشاں ہے ۔

سویڈن کے قدیم شہر اُپسالا میں قائم خوبصورت مسجد۔

جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے، سویڈن میں کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی مذہبی لحاظ سے نہ درجہ بندی کی جاتی ہے اور انہیں ہی ان کی کوئی الگ مخصوص رجسٹریشن کی جا تی ہے ۔ لہٰذا یہ کہنا تو بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن ہے کہ سویڈن کےمسمانوں میں سے کتنے کس کس مسلک یا فرقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ لیکن اُپسالا یونیورسٹی کی ایک غیر سرکاری تحقیق کے مطابق،  ان مسلمانوں میں  اڑھائی لاکھ سنی العقیدہ ہیں ۔  ساڑھے پانچ ہزار کے قریب شیعہ،  اور ایک ہزار سے کچھ زائد احمدی ہیں( ان احمدیوں میں اکثریت پاکستانی و ہندوستانی النسل افراد کی ہے جب کہ کچھ سویڈش النسل بھی ہیں ۔ پاکستانی آئین مملکت میں ان احمدیوں کو اگرچہ ’’ خارج از اسلام ‘‘ قرار دیا جا چکا ہے لیکن یہ خود کو مسلمان کہتے اور اپنے آپ کو خالص اسلامی دینی  و شرعی اقدار کے پابند قراردیتے ہیں )۔

 ترکی اور شام سے تعلق رکھنے والے ’’ علویوں ‘‘ کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد ہے ۔

کئی ایک علاقائی اور مقامی سطحوں پر بھی مسلمانوں کی کافی فعال تنظیمیں کام کرتی ہیں اور اگرچہ ان کا دائرہ کار مقامی سطح تک ہی محدود رہتا ہے لیکن  قومی سطح پر ان میں سے کئی ایک مرکزی تنظیموں سے گہرا رابطہ رکھتی ہیں ۔ ان مرکزی اور علاقائی اسلامی تنظیموں کی جانب سے کئی ایک ماہوار جریدے بھی شائع کیے جاتے ہیں جو سویڈش زبان ہوتے ہیں اور کئی ایک عربی یا کسی دوسری زبان میں بھی مواد شامل کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک کی اپنی اسلامی ویب سائٹ بھی ہیں ۔

قومی سطح پر سویڈن میں مسلمانوں کی تین تنظیمیں بڑی ٹھوس مانی جاتی ہیں اور میڈیا اور سرکاری حلقوں میں انھیں مسلمانوں کی باقاعدہ تنظیمیں تسلیم کیے جانے کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔ ان میں،  مسلم ایسوسی ایشن اِن سٹاک ھولم ،  مسلم ایسوسی ایشن اِن سویڈن اور مسلم کونسل آف سویڈن شامل ہیں ۔

دارالحکومت سٹاک ھولم سمیت، ساحلی شہر مالمو میں جہاں مسلمانوں کی آبادی کافی تیزی سے بڑھی ہے، وہاں پاکستانی النسل مسلمانوں کی چند ایک تنظیمیں کافی متحرک ہیں اور انہوں نے چند ایک ’’ اسلامی تعلیمی مدرسے ‘‘ بھی قائم کر رکھے ہیں ۔

سٹاک ھولم اور اس کے مضافات میں اس سلسلے میں ڈاکٹر عارف کسانہ ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں جو نہ صرف اپنے ہموطنوں بلکہ سویڈش حلقوں میں بھی اپنی اسلامی دینی و رفاعی اور سماجی خدمات کی بنا پر قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔ ڈاکٹر عارف کسانہ دینی درس و تدریس کا اہتمام کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو سویڈش سماج میں آگے بڑھانے کے لیے مختلف اجتماعات  منعقد کرتے اور  سویڈشوں کے ساتھ مشترکہ میل ملاپ کے مواقعے مہیا کرتے ہیں۔

 انہوں نے اپنے حلقے میں ’’ قرآن فہمی ‘‘ اور مسلمان بچوں کی ’’ دینی تعلیم ‘‘ کا باقاعدہ ایک سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور یہ حلقہ بتدریج  وسیع ہوتا جا رہا ہے ۔

ساحلی شہر مالمو میں بھی کئی ایک پاکستانی النسل افراد خدمت دین کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں اوران کی ان کوششوں کو  ڈنمارک کے ادارہ منہاج القرآن کا بھر پور تعاون حاصل ہے ۔ بد قسمتی سے مالمو شہر میں پچھلے ایک دو سال سے بڑھتی ہوئی نسل پرستی اور ہر دو اطراف یعنی تارکین وطن پس منظر رکھنے والوں اور سویڈش النسل قومیت پرستوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے اب ’’ کھلی عداوت ‘‘ کی جو شکل اختیار کر رکھی ہے وہ انسانی ہمدردی کے علبردار اور ’’ ہم زیستی ‘‘ اور ’’ بقائے باہمی ‘‘ کے درخشاں اصولوں پر کاربند رہنے والے اور ’’ ہم وجودیت ‘‘ پر یقین رکھنے والے سویڈن کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ۔ ہر چند کہ اس نسلی منافرت کے لیے سویڈن کو بحیثت ملک و قوم مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں لیکن اُس سے یہ مطالبہ کیا جانا کسی بھی لحاظ سے ناجائز نہیں کہ وہ اپنے ہاں اپنے اِن ’’ نئے شہریوں ‘‘ کو تحفظ مہیا کرے ان کی سلامتی کے لیے اقدامات لے اور انہیں محض اس لیے قومی دھارے سے دور نہ رکھے کہ یہ ’’ نئے سویڈش شہری  ’’مسلمان ‘‘  ہیں‘‘۔

 

سویڈن کے ساحلی شہر مالمو میں مسلمانوں کی عظیم الشان مسجد، سویڈن میں ’’ ہم عصری بقائے باہمی ‘‘ کی ایک درخشاں مثال

 

-------------------------------------------------------

رمضان سے ہم نے کیا حاصل کیا۔۔تحریر:عارف محمود کسانہ

 

رمضان المبارک اپنی تمام تر رحمتوں اور برکتوں کا سایہ ہم پر فگن کرنے کے بعد رخصت ہوا ہے چونکہ اس ماہ مبارک میں انسانیت کے نام خدا کا آخری پیغام اور ہدایت کا نزول ہوا تھا اس لئے عید الفطر کی صورت میں جشن نزول قرآن منایا جاتا ہے ۔کسی اور مذہب میں رمضان کے روزوں کی صورت میں مجاہدانہ تربیت کا اس قدر اہم نظام موجود نہیں جیسا کہ دین اسلام میں ہے مگر بد قسمتی یہ ہے کہ ہم محض فاقہ کشی کو روزہ سمجھ لیتے ہیں اور ایک حدیث رسول ؐ پاک کے مطابق برائیوں کو ترک نہ کرنے پر صرف بھوک اور پیاس ہی ملتی ہے ۔جس قوم میں رمضان کی صورت میں بہترین سپاہیانہ سالانہ ٹریننگ کا نظام ہو اس قوم کا کردار اور خوبیاں سب سے اعلیٰ و ارفع ہونی چاہئیں تھیں ۔روزہ کی روح اور اس کے اصل مقصد کو نہ ہی ہم سمجھ پاتے ہیں اور نہ ہی رمضان کے بعداس حاصل تربیت کو باقی گیارہ مہینوں میں اپناتے ہیں۔کچھ یہی صورت حال ہم دیگر عبادات کے ساتھ کرتے ہیں جنہیں ہم نے رسمی انداز میں ادا کرنے کو ہی تمام غرض غائیت سمجھ رکھا ہے ۔ علامہ اقبال بھی اس حقیقت کو یوں اجاگر کرتے ہیں۔ نماز و روزہ و حج و زکوٰۃ یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں جواب شکوہ میں حکیم الامت مزید لکھتے ہیں، رہ گئی رسم اذاں ،روح بلالی نہ رہی فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی مسجد یں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے لاکھوں کے اجتماع ،مساجد میں قیام الیل اور دیگر رسمی عبادات نتیجہ خیز نہیں ہیں۔جس قوم کا ہر سال لاکھوں افراد کا کئی دنوں تک عالمگیر اجتماع ہو مگر اس قوم کی تقدیر نہ بدلے تو ضرور سوچنا چاہیے کہ وجہ کیا ہے۔ہماری پانچ وقت نماز بھی ہمیں برائیوں سے نہیں روکتی حالانکہ یہ نماز کا دعویٰ ہے۔وجہ بھی قرآن حکیم سورہ الماعون میں خود بتاتا ہے ۔جو صلوٰۃ کی حقیقت سے نا آشنا ہوں اور صرف ظاہری حرکات و سکنات کو ہی حقیقت صلوٰۃ سمجھ لیں وہ بجائے اس کے کہ برائیوں سے بچائے اور بہتر نتائج پیدا کر کے وہ ہلاکت کا باعث بن جاتی ہے ۔ ماہ رمضان کے روزے رکھنے،نماز باقاعدگی سے ادا کرنے اور قرآن حکیم کی تلاوت کے باوجود اگر ہماری ذاتی اور اجتماعی زندگی میں بہتری پیدا نہیں ہورہی تو ہمیں ضرور سوچنا چاہیے کہ اس کی وجہ کیا ہے قرآن حکیم بھی ہمیں حکم دیتا ہے کہ سوچا کرو۔حکیم الامت علامہ اقبال غورو فکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ، منزل و مقصود ِقرآن دیگر است رسم ِو آئین مسلمان دیگر است قرآن حکیم کی تعلیمات کچھ اور ہیں اور مسلمانوں کا طرز ِعمل کچھ اور ہے ۔عبادت محض کچھ رسمی امور بجالانے کا نام نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں خدا کے آخری پیغام جو حضور ؐ کی بدولت ہمیں ملا ا س پر عمل پیرا ہونے کا نام ہے ۔اور یہی ہمیں زمانہ میں عزت و وقار دے گا۔ قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلمان اللہ کرے عطا تجھے جدت ِکردار

 


 

 

 

Woman in the light of Holy Quran

 

 

 

 

Reasons of Decline of Muslims and it´s Solution

 

 



Islam is not Failure

 

 

 

 

 

 

This website was built using N.nu - try it yourself for free.(info & kontakt)